Moazzam Ali: Aik darvesh siffat news hawker(معظم علی:ایک درویش صفت نیوزھاکر)
معظم علی: ایک درویش صفت نیوزہاکر
معظم کوروزانہ ہرمزاج اورہرقماش کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے مگروہ تابعداری اورحلیمی کی خُونہیں چھوڑتا
تحریر:محمدیوسف بھٹہ
سردی ہو یا گرمی،بارش ہو یا دھوپ،دھندہویالُو،حبس ہویاطوفان اخبارفروش معظم علی بلا ناغہ ہمیں گجرات کی ضلع کچہری کے مین گیٹ کے باہراپنی سائیکل پراپنانیوزسٹال سجائے نظرآتاہے۔صبح 6بجے سے دوپہر ایک بجے تک وہاں مفت اخباربینوں کاہجوم نظرآتاہے۔معظم علی اسلامی مساوات کاعلمبردارہے۔وہ اخبارخریدنے والوں اور مفت پڑھنے والوں سے مساوی سلوک کرتاہوانظرآتاہے۔چاہے کوئی مفت بر اس سے بیس اخبارلیکربھی پڑھ لے وہ اس کے مطلوبہ اخبارنکال نکال کردیتا جاتا ہے اوراس کے ماتھے پر ذرابھی شکن نہیں آتی۔یہ بھی ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ اس نے آج تک کسی مفت برسے اخبارخریدنے کو نہیں کہا۔معظم علی ایک ایساشریف النفس، حلیم الطبع،منکسرالمزاج،ایمانداراورمرنجاں مرنج انسان ہے کہ وہ سارادن لوگوں کی بدتمیزیاں،بددیانتیاں اور طرح طرح کی چھوٹی موٹی زیادتیاں ہس ہس کرسہہ لیتا ہے مگرکبھی کسی کا شکوہ زبان پرنہیں لاتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ معظم سے اخبارمستعارلے کراپنے دفاتریادکانوں پرلے جاتے ہیں اورمعظم خوش دلی سے انہیں ان کا پسندیدہ اخباردے دیتاہے۔ بیشتر لوگ اخبار پڑھ کر دوپہرکوواپس کرجاتے ہیںیا معظم کوخودجاکران سے اخبار واپس لانا پڑتاہے۔کئی ایسے بھی بدبخت ہوتے ہیں جوچکردے کراخبارہڑپ کرجاتے ہیں اوراس کی قیمت بھی ادانہیں کرتے ۔ کئی ایسے لوگ بھی معظم کے ’’متھے‘‘لگتے ہیں جوانتہائی بذوق واقع ہوتے ہیں اور’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق اخبارکواس بے دردی سے الٹاسیدھاکرتے ہیں کہ اس کا حلیہ ہی بگڑجاتاہے اورکوئی گاہک انہیں خریدنے کوتیارنہیں ہوتااوریوں اس طرح بھی معظم کوہی مالی نقصان اٹھاناپڑتاہے۔معظم نے کبھی ناگواری کا اظہارنہیں کیا۔گاڑیوں میںآنے والے کئی لوگ ہارن بجاکرمعظم کومتوجہ کرتے ہیں تومعظم بھاگا بھاگا ان کے پاس جاتاہے اوران کی ڈیمانڈکے مطابق ان کواخبارات گاڑی میں پہنچاکرآتاہے۔کئی لوگ توسڑک کے بیچ موٹر سائیکل کھڑی کرکے معظم کواشارہ کرکے اخبارلانے کاکہتے ہیں اورمعظم ان کاحکم بجا لانے میں ذرابھی تامل سے کام نہیں لیتا۔
گجرات کابدنام زمانہ پیشہ ورنعت خوانواں کاگروہ بھی معظم کے سٹال سے ہی مقامی اخبارات پڑھ کرشکارتلاش کرتا ہے اورانہیںیہاں مفت اخبارپڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ آج کہاں قل ہے،کہاں ختم دسواں، کہاں چہلم اور کہاں برسی ہے۔حتہٰ کہ وہ گروہ اشرافیہ کی شادی بیاہ اورخوشی کی دیگرتقاریب کی خبرپڑھ کروہاں بھی جاپہنچتا ہے۔ اس گروہ کے کچھ سینئرارکان اب شاپرجیب میں ڈال کرلے جاتے ہیں اوراپناپیٹ بھرنے کے بعداپنے بال بچوں کاحصہ بھی چپکے سے نکال لاتے ہیں۔معظم علی کوان کی ساری کرتوتوں کاعلم ہے مگروہ ان کی غربت کالحاظ کرتا ہے
کوئی معظم سے سودوسو یاپانچ سات سوادھارمانگتاہے تومعظم ان کی ضرورت پوری کرنے میں ذراسی بھی دیرنہیں لگاتا۔پھرایسابھی ہواکہ کئی لوگ ادھارلے کرغائب ہوگئے اورانہوں نے اپنا راستہ ہی بدل لیا ۔ معظم نے انہیں اﷲکی رضاکیلئے چھوڑدیا۔سائل اورحاجت مندکوکبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔راستہ پوچھنے والے اجنبی لوگوں کے ساتھ تو معظم کارویہ انتہائی مشفقانہ اوربرادرانہ ہوتاہے۔وہ اپنے سارے کام کاج چھوڑکران کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔بے روزگاراورمزدوری کرنے والوں کوجاب کی تلاش اوردیگرمعلومات فراہم کرنے میں پیش پیش رہتا ہے
معظم کوروزانہ ہرمزاج اورہرقماش کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے مگروہ تابعداری اورحلیمی کی خُونہیں چھوڑتا۔اسے کوئی اوئے کہہ کربلاتاہے تووہ جی جی کے ساتھ اس کی بات سنتا ہے۔کوئی بیزاری سے بولتاہے تو وہ محبت سے پیش آتاہے۔کوئی پریشانی کے عالم میں معظم کے پاس آتاہے تووہ خلوص کے ساتھ اسے پاس بٹھاتااوراس کی اشک شوئی کرتاہے۔وہ غریب ونادارکی بات کوخوب کان دھرکرسنتاہے اوراس کی حاجت روائی کرتاہے۔کوئی غمزدہ اور ناامیدآتاہے تومعظم اپنی خوش اخلاقی،خلوص اورمحبت کے ساتھ اس کی دل جوئی کرتاہے۔معظم علی کے پاس لوگ اپنی امانتیں رکھ کرجاتے ہیں۔وہ ان کی پوری حفاظت کرتا ہے اورجب تک وہ چاہیں انہیں اپنی تحویل میں رکھتا ہے۔اگرکوئی گاہک وہاں اپنی کوئی چیزیابقایالینابھول جائے تومعظم اس کوواپس کرنے کیلئے بے چین ہوجاتا ہے۔ اگرایساواقعہ کسی جاننے والے کے ساتھ پیش آئے تومعظم اسے فون کرکے اطلاع دیتاہے اوراس وقت تک مطمئن نہیں ہوتاجب تک وہ چیزاصل شخص تک نہ پہنچ جائے۔اس طرح کی بلامعاوضہ اوربے لوث خدمات کی وجہ سے معظم کے ماتھے پرکبھی بل نہیں آیااورنہ ہی وہ ان کاموں سے کبھی بیزاردکھائی دیاہے۔
معظم علی کے چالیس سالہ کیریئرمیں لوگ اس کے اخبارات کے لاکھوں روپے کے بل ہڑپ کرچکے ہیں مگرمعظم علی شاکی ہونے کی بجائے اس پر بھی اﷲکاشکراداکرتاہوانظرآتاہے۔معظم علی کے چاردیگر بھائیوں شہزاد،بدر، سروراورسلیم سمیت ان کے خاندان کے لگ بھگ 20افراداس پیشہ سے وابستہ ہیں۔یہ پیشہ انہیں اپنے والدغلام حسن مرحوم سے ورثہ میں ملا۔معظم کے ایک بڑے بھائی ظفرجیادبین الاقوامی سطح کے خطاط،مصوراورڈیزائنرہیں جوطویل عرصہ سے اسلام آبادمیں مقیم ہیں۔ظفرجیادکے شاگردوں کی تعدادان گنت ہے حتہٰ کہ ملک کے نامور کالم نگار،ڈرامہ نگاراورسابق بیوروکریٹ اوریامقبول جان کا کہناہے کہ انہوں نے بھی سکول کے زمانہ میں ظفر جیاد سے خطاطی سیکھی تھی۔
میں اس ایماندار،قانع اورانسانوں سے محبت کرنے والے محنت کش کوسلام پیش کرتاہوں۔بلاشبہ ان کی بہت سی اعلیٰ انسانی اقدارہمیں امید،تحریک اورحوصلہ دیتی ہیں۔اس طرح کے افرادمعاشرے کاحسن اور انسانیت کا پرتو اور مادہ پرست زمانے کیلئے ایک روشنی ہیں۔
****
Comments
Post a Comment