Posts

Showing posts from July 2, 2017

Urdu kay sada bahar ashaar(اُردوکے سدابہاراشعار:جوضرب المثل بن گئے)

Image
اُ ردوکے سدابہاراشعار : جوضرب المثل بن گئے (قسط نمبر1) (محمدیوسف بھٹہ)  اردوشاعری ایسے بے شماراشعارسے بھری پڑی ہے جو نہ صرف سدابہارہیں بلکہ وہ ایک ضرب المثل کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔نئے لکھاری ، مقرراورخصوصاًسیاسی قائدین ان اشعارکا بے دریغ استعمال کرتے اوربے پناہ دادوصول کرتے ہیں۔ان میں زیادہ تراشعار استادشعراء کے مجموعہ ہائے کلام میں شامل ہیں۔اگرغورکیاجائے توہرشعرانتہائی گہرے تخیل اورزندگی کی حقیقتوں کواپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔آج ہم کچھ ایسے ہی اشعارآپ کی خدمت میں پیش کرنے والے ہیں: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر (ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؔ ) آہ کو چاہئے اِک عمراَثر ہونے تک کون جیتاہے تری زلف کے سرہونے تک (مرزاغالبؔ ) آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں (ساغر ؔ صدیقی)  آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں توہائے گل پکارمیں چلاؤں ہائے دل (سیدمحمدخان رندؔ ) اُلجھاہے پاؤں یارکازلفِ درازمیں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا (مومن خان مومنؔ ) بہت شورسنتے تھے پہلومیں دل کا جوچیرات

Moazzam Ali: Aik darvesh siffat news hawker(معظم علی:ایک درویش صفت نیوزھاکر)

Image
معظم علی: ایک درویش صفت نیوزہاکر معظم کوروزانہ ہرمزاج اورہرقماش کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے مگروہ تابعداری اورحلیمی کی خُونہیں چھوڑتا تحریر:محمدیوسف بھٹہ سردی ہو یا گرمی،بارش ہو یا دھوپ،دھندہویالُو،حبس ہویاطوفان اخبارفروش معظم علی بلا ناغہ ہمیں گجرات کی ضلع کچہری کے مین گیٹ کے باہراپنی سائیکل پراپنانیوزسٹال سجائے نظرآتاہے۔صبح 6بجے سے دوپہر ایک بجے تک وہاں مفت اخباربینوں کاہجوم نظرآتاہے۔معظم علی اسلامی مساوات کاعلمبردارہے۔وہ اخبارخریدنے والوں اور مفت پڑھنے والوں سے مساوی سلوک کرتاہوانظرآتاہے۔چاہے کوئی مفت بر اس سے بیس اخبارلیکربھی پڑھ لے وہ اس کے مطلوبہ اخبارنکال نکال کردیتا جاتا ہے اوراس کے ماتھے پر ذرابھی شکن نہیں آتی۔یہ بھی ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ اس نے آج تک کسی مفت برسے اخبارخریدنے کو نہیں کہا۔معظم علی ایک ایساشریف النفس، حلیم الطبع،منکسرالمزاج،ایمانداراورمرنجاں مرنج انسان ہے کہ وہ سارادن لوگوں کی بدتمیزیاں،بددیانتیاں اور طرح طرح کی چھوٹی موٹی زیادتیاں ہس ہس کرسہہ لیتا ہے مگرکبھی کسی کا شکوہ زبان پرنہیں لاتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ معظم سے اخبارمستعارلے کراپ

Mujhay ulfat hay us dunya sy۔(مجھے الفت ھے اُس دنیا سے)

! مجھے الفت ہے اُس دنیاسے محمدیوسف بھٹہ مجھے الفت ہے اُس دنیاسے جہاں بربط بجتے رہتے ہوں جہاں سہرے سجتے رہتے ہوں جہاں گجرے مہکے رہتے ہوں جہاں خوشبوپھیلی رہتی ہو جہاں بلبل چہکی رہتی ہو جہاں پیت پیارکی باتیں ہوں جہاں روزروزملاقاتیں ہوں جہاں خوشیوں کابس ڈیرہ ہو جہاں غم کاکبھی نہ پھیراہو جہاں تن پہ سب کے کپڑے ہوں جہاں بال کسی کے نہ بکھرے ہوں جہاں خوشیاں بٹتی رہتی ہوں جہاں نفرتیں مٹتی رہتی ہوں جہاں جھوٹ ریاکانام نہ ہو جہاں دھوکہ صبح شام نہ ہو جہاں مجبوری نہ فاقہ ہو جہاں چوری ہونہ ڈاکہ ہو جہاں رُوپ بہروپ نہ بنتے ہوں جہاں سائے دھوپ نہ بنتے ہوں امیدوں کے جہاں دیپ جلیں آاُس دنیامیں سب لوٹ چلیں **** (یہ نظم ۱۹۹۹میںپروڈیوسرجناب مشتاق چودھری کی فرمائش پرایک ڈرامہ سیریل روپ بہروپ کے ٹائٹل کیلئے لکھی گئی تھی جو کسی وجہ سے شامل نہ ہوسکی تھی

Rahat Malik: Aik hama jehat shakhsiat(راحت ملک:ایک ہمہ جہت شخصیت)

Image
(راحت ملک: ایک ہمہ جہت شخصیت(شاعر،صحافی،کالم نگار،دانشور،سیاسی کارکن،انقلابی،باغی،شعلہ بیاں مرحوم کی زندگی کا ایک تابناک پہلوجس سے عام لوگ ناواقف ہیں (تحریر:محمدیوسف بھٹہ) راحت ملک مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ان کی شخصیت کا ہرپہلوبڑاشانداراورتوانائی سے بھرپورتھا۔اگر بنظرِغائر دیکھا جائے توان کی پوری زندگی طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہدکرتے اورمعاشرے کی اونچ نیچ اوردوغلے پن کے خلاف لڑتے ہوئے گزری۔ راحت ملک قدرت کی تمام کاریگری کے ادراک کیلئے عقل وفہم کواستعمال کرنے کے حامی تھے۔ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تخلیقات میں نہ صرف اپنی ربوبیت کااظہارکیاہے بلکہ انسان کوغوروفکرکرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ دبلے پتلے جسم مگرچٹان جیسے عزم کے مالک راحت ملک بچپن سے ہی استحصالی قوتوں کے ساتھ نبردآزماہوگئے تھے۔انہوں نے ایک باطل عقیدے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی تمام خاندانی وراثت، خونی رشتوں اورشان و شوکت کوبھی ٹھکرادیااورپوری زندگی کسمپرسی میں گزارنے کوفخرمحسوس کیا۔ نوعمری کے ایک واقعہ نے راحت ملک کی زندگی کارخ موڑدیا۔اس واقعہ سے ان کی فکراورعمل کی سمت کابخوبی اندازہ لگایاجا

گجرات کی ابھرتی ہوئی شاعرہ کا زبردست کلام :Samia Akss Poetess of Gujrat ...

Image

پھولوں اورپودوں سے محبت کا اظہارانسان کی فطرت کا ایک مظہر

Image
پھولوں اورپودوں سے محبت کا اظہارانسان کی فطرت کا ایک مظہر محمدیوسف بھٹہ،گجرات پھول قدرت کاایک حسین اورلاجواب تحفہ ہیں۔پھولوں کی دل آویزخوشبو،دلکش رنگ،نزاکت اوردوسری بے     شمارخوبیاں اپنی جگہ ضرب المثل  بن چکی ہیں۔انسان اورپھولوں کا رشتہ کائنات کے آغازسے شروع ہوااور کائنات کے وجودتک قائم رہے گا۔ یوں توگلاب سمیت مختلف قسم کے پھول ساراسال ہی ہمارادل لبھاتے رہتے ہیں مگرموسم بہارشروع ہوتے ہی ہرطرف پھولوں کی بہارآ جاتی ہے۔پاکستان دنیاکے ان خوش قسمت ترین ملکوں میں شمارہوتاہے جہاں قدرت نے کائنات کے تمام رنگ اورتمام موسم عطاکیے ہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ موسم سرماہویاموسم بہار، موسم گرماہویاموسم خزاں تمام رتوں کاالگ ہی مزہ اورالگ ہی رنگ ہے ۔ موسم بہارمیں ہم پھولوں اورپودوں سے اپنے ازلی رشتے کومضبوط کرنے کیلئے شجرکاری کرتے ہیں اوران کی دیکھ بھال اورپرورش کا عہد کرتے ہیں۔کائنات میں اگرپھول اور پودے نہ ہوتے توانسان اپنے جذبات کے اظہار سے عاری اورخوشبوکی لذت سے ناآشنارہتا۔ یادرکھیئے پھول اورپودے ہمیں زندگی عطاکرتے ہیں،ہمیں راحت اورخوشی عطاکرتے ہیں۔ان سے گفتگ

بھٹوکی مختصرسیاسی زندگی کے بڑے کارنامے

Image
بھٹوکی 21سالہ سیاسی زندگی : ان کے چارسالہ دورِِاقتدارکی کامیابیوں اورناکامیوں کامختصرجائزہ تحریر:محمدیوسف بھٹہ ذوالفقارعلی بھٹونے اپنی مختصرسیاسی زندگی (1970-1958)میں جس قدرمقبولیت اورشہرت حاصل کی یہ دنیاکی تاریخ کاایک منفردباب ہے۔اپنے فیصلوں اورمبینہ طورپر جلد مشتعل ہوجانے والی طبع کے باعث انہیں پاکستان میں متنازعہ بنایاگیامگربیرونی دنیامیں وہ اپنی سیاسی بصیرت،جرأت وبہادری،ذہانت،دُوراندیشی اور لازوال قائدانہ صلاحیتوں کے باعث آج بھی قدآوراورناقابل فراموش لیڈر مانے جاتے ہیں۔ بچپن میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کوخط لکھ کرسیاستدان بننے کی خواہش ظاہرکرنے والے ذالفقارعلی بھٹوعرف زلفی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کااظہارزمانہ طالبعلمی سے ہی کردیاتھا۔خط کے جواب میں قائداعظم ؒ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے لکھاتھاکہ سیاست میںآنے کیلئے بہت زیادہ تعلیم حاصل کرو اورپھراس میدان میں قدم رکھنا۔بھٹونے اپنے قائدکی بات پرپوراعمل کیااورپاکستان میں حصول علم کے بعد امریکی وبرطانوی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے قانون اوربین الاقوامی تعلقات پردسترس حاصل کی اورپھرپاکستان  کے میدان سیاست میں قدم رکھا۔

کلام میاںمحمدبخش...Saiful Malook

Image
میاںمحمدبخش کاکلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تازہ،جاندار اورمیٹھی آوازمیں تحریر:محمدیوسف بھٹہ میاں محمد بخش قادری   پنجابی  زبان کے بے حد مقبول اورمعروف شاعر ہیںجن کا کلام پنجابی نہ بولنے والے بھی بخوبی سمجھتے اورپسندکرتے ہیں۔اہل علم ودانش کی زبان میں انہیں  رومی کشمیر بھی  کہا جاتا ہے۔ سیف الملوک  ان کی ایک شاہکار کتاب  ہے۔ جس کا اصل نام  سفر العشق  ہے اور معروف نام سیف الملوک و بدیع ۔۔ الجمال ہے سیف الملوک میاںمحمدبخش نے اپنی زندگی میں خودچھپوائی تھی اوران کویقین تھاکہ یہ عوام الناس میں انتہائی مقبول  ہوگی۔ میاں صاحب کے کلام کومختلف لوگوں نے اپنے اپنے اندازسے پڑھا اورگایاہے۔شوکت علی،عنایت حسین بھٹی،اقبال باہواورعاشق جٹ کے اندازبے پناہ مقبول ہوئے۔اب حالیہ برسوں میں کچھ نعت خوانوںنے بھی ان کے کلام کواپنے اندازمیں پڑھاہے مگر زیادہ تر نے متذکرہ بالاگلوکاروں میں سے کسی ایک کی طرز کو ہی اپنایاہے۔ گجرات کی دھرتی کے ایک نوجوان ڈاکٹرجوپیشہ کے لحاظ سے سکن سپیشلسٹ ہیںاپنی ۔۔تازہ،جاندارآوازاورحقیقی پنجابی لہجے والی زبان میںسیف الملوک گاتے ہیںڈاکٹراظہرمحمودچودھری نے اپنے پہلے آڈیوالبم ’’کچ دا

UOG aur community development main kirdar

(Bazeechaa)بازیچہ وائس چانسلرصاحب !گجرات یونیورسٹی نے کیمونٹی ڈویلپمنٹ میں کیاکرداراداکیاہے؟ محمدیوسف بھٹہ گزشتہ روزیونیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلرڈاکٹرضیاالقیوم نے ’’مقبوضہ پریس کلب ‘‘ گجرات کادورہ کیااورمبینہ طورپرایک سیمینار بعنوان ’’یونیورسٹی آف گجرات کاکمیونٹی ڈویلپمنٹ میں کردار‘‘ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ایک مقامی روزنامہ نے اس کی ضرورت سے زیادہ کوریج کی جس کی زبان بہت شستہ ،مہذب اورادبی ہے ۔لگتاہے کسی رپورٹر نے نہیں بلکہ کسی ادیب نے خبریں بنائی ہیں لیکن اسے پڑھ کر مجھے انتہائی افسوس ہوااورمیں اس پراپناردعمل دینے پرمجبورہوگیاہوں۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ گجرات شہرمیں دوپریس کلب قائم ہیں اورایک پرکچھ افرادکابزورقبضہ ہے جوہرسال عہدوں کی بندربانٹ کرلیتے ہیں لہذایہ ادارہ متنازعہ بن چکاہے۔دوسراپریس کلب بھی ممبران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے غیرمتحرک ہے لیکن اس میں ممبران کی تعداداول الذکرپریس کلب سے بھی زیادہ ہے۔وائس چانسلرصاحب اس حقیقت سے بے خبرکیوں ہیں؟ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ یہ تقریب ہرگزکوئی سیمینارنہ تھی۔نہ اس کافارمیٹ سیمیناروالاتھا،نہ اس کے شرکاء موضوع سے