Rahat Malik: Aik hama jehat shakhsiat(راحت ملک:ایک ہمہ جہت شخصیت)
(راحت ملک: ایک ہمہ جہت شخصیت(شاعر،صحافی،کالم نگار،دانشور،سیاسی کارکن،انقلابی،باغی،شعلہ بیاں
(تحریر:محمدیوسف بھٹہ)
راحت ملک مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ان کی شخصیت کا ہرپہلوبڑاشانداراورتوانائی سے بھرپورتھا۔اگر بنظرِغائر دیکھا جائے توان کی پوری زندگی طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہدکرتے اورمعاشرے کی اونچ نیچ اوردوغلے پن کے خلاف لڑتے ہوئے گزری۔
راحت ملک قدرت کی تمام کاریگری کے ادراک کیلئے عقل وفہم کواستعمال کرنے کے حامی تھے۔ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تخلیقات میں نہ صرف اپنی ربوبیت کااظہارکیاہے بلکہ انسان کوغوروفکرکرنے کی دعوت بھی دی ہے۔
دبلے پتلے جسم مگرچٹان جیسے عزم کے مالک راحت ملک بچپن سے ہی استحصالی قوتوں کے ساتھ نبردآزماہوگئے تھے۔انہوں نے ایک باطل عقیدے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی تمام خاندانی وراثت، خونی رشتوں اورشان و شوکت کوبھی ٹھکرادیااورپوری زندگی کسمپرسی میں گزارنے کوفخرمحسوس کیا۔
نوعمری کے ایک واقعہ نے راحت ملک کی زندگی کارخ موڑدیا۔اس واقعہ سے ان کی فکراورعمل کی سمت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ وہ اکثرنجی محفلوں میں اس واقعہ کاتذکرہ کیاکرتے تھے اوراسے اپنے لیے توشہ آخرت تصورکرتے تھے۔
وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ راحت ملک کاپوراخاندان احمدیہ فرقے سے تعلق رکھتاتھا۔محض تعلق ہی نہ تھا بلکہ اس فرقہ کے مرکزی ذمہ داران میں شمارہوتے تھے۔راحت ملک بچپن سے ہی کتابوں کے مطالعہ اورتحقیق وجستجو کے خوگرتھے۔انہوں نے بچپن میں قرآن پاک اورسیرت رسول ﷺکابھی مطالعہ کررکھاتھا۔جب انہیں احمدیہ مذہب کے عقیدہ سے آگاہی ہوئی توانہوں نے اسے اسلامی بنیادی عقائداورفرامین الٰہی سے متصادم پایا،چنانچہ ختم نبوت کے حوالے سے ان کے دل ودماغ میں اپنے عقیدے کے خلاف بغاوت نے جنم لے لیا۔وہ اس کا اظہارچاہتے تھے مگرانہیں اس کا کوئی موقع ہاتھ نہ آتاتھا۔راحت ملک سکول کے زمانہ سے ہی بہت اچھے مقررتھے۔ کسی بھی موضوع پرمدلل اوربے تکان بولنے پرملکہ حاصل تھا۔
جماعت احمدیہ کایوم یاسیس تھا۔سالانہ تقریب کی خوب تیاریاں کی گئیں ۔راحت ملک کے والدین اوردیگربزرگوں نے انہیں تیارکیاکہ وہ اس خصوصی تقریب میں جماعت کے خلیفہ کواپنے جوشِ خطابت سے خوب پزیرائی بخشیں گے۔تقریب میں ملک بھرسے اوربیرونی ممالک سے ہزاروں مہمان شریک تھے۔سٹیج سیکرٹری نے جب ابتدائی رسمی کارروائی کے بعدخطاب کیلئے راحت ملک کانام پکاراتوساراپنڈال تالیوں سے گونج اٹھاکیونکہ ان میں سے اکثران کے طرزخطابت سے واقف تھے اورتوقع کررہے تھے کہ آج اس خصوصی تقریب میں وہ اپنے جوش خطابت سے جماعت کوبرحق اورخلیفہ کوکمیونٹی کی سب سے زیادہ معتبراورقابل احترام ہستی ثابت کریں گے۔
راحت ملک نے سٹیج پرآکربسم اللہ سے اپنی تقریرکاآغازکیا۔اس کے بعدعقیدہ احمدیت اوراحمدیت کے نام نہادخلیفہ کی وہ مٹی پلیدکی جس کی آج تک ان کے سامنے کسی نے جرأت نہ کی تھی۔ان کے چبھتے ہوئے الفاظ اورنفرت کااظہارکرنے والے خیالات نے لوگوں کومبہوت کردیا۔کسی کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں یایہ حقیقت ہے۔تقریرسے پنڈال میں سراسیمگی پھیل گئی اورلوگوں نے شور مچا دیا۔کسی نے لپک کرمائیک بندکردیا۔کسی اورنے راحت ملک کوقمیص سے پکڑکرسٹیج سے نیچے کھینچ لیا۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک نوعمر طالبعلم احمدیت کے سربراہ اورسرکردہ عہدیداران کے سامنے یوں گستاخانہ اندازسے ان کی تذلیل اورتوہین کرے گا۔اس تقریرنے انتظامیہ اورتمام حاضرین میں شدیدغم و غصہ کی لہردوڑادی۔بیشترلوگوں کاموقف تھا کہ اس گستاخ لڑکے کوابھی گولی مارکرہلاک کردیا جائے ۔جسے اﷲرکھے اسے کون چکھے۔راحت ملک کے چچا اوروالداس گستاخی کی سخت سے سخت سزادینے پر متفق ہوگئے اورانہوں نے انہیں ایک کمرے میں بندکردیا۔راحت ملک کی والدہ کی ممتاجاگی اوراس نے اپنے بیٹے کوموت سے بچانے کی ٹھانی۔ابھی تقریب جاری تھی کہ وہ چوری چوری اس کمرے میں پہنچیں اوربیٹے کوبھیانک انجام سے خبردارکیا۔بیٹاجذباتی تھا،اس نے سنی ان سنی کردی مگرممتاکوچین نہ آیا۔ چنانچہ والدہ نے راحت ملک کوکچھ کپڑے اورضروری سامان باندھ کردیااورکچھ رقم بطورزادِراہ دیتے ہوئے ہاتھ جوڑے کہ خداکیلئے یہاں سے فوراًنکل جاؤورنہ ناحق مارے جاؤگے۔راحت ملک والدہ کے انتہائی اصرارپرعازمِ سفرہوئے اورلاہورکارخ کیا۔
لاہورپہنچ کرانہوں نے روزگار کیلئے روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹرحمیدنظامی مرحوم سے ملاقات کافیصلہ کیا۔حمیدنظامی سے مل کرساری داستان کہہ سنائی۔حمیدنظامی نے راحت ملک کی بہادری اوربے باکی کی تعریف کی اوراپنے اخبارمیں ملازم رکھ لیا۔اس طرح انہیں بطور سب ایڈیٹرنائٹ شفٹ میں کم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔وہ روزانہ شام چھ بجے سے دوبجے تک نیوزروم میں اپنے فرائض انجام دیتے۔
یہ وہ دورتھا جب تحریک ختم نبوت عروج پرتھی ۔ملک بھرکے علماء، مشائخ،دینی جماعتوں کے اکابرین سبھی حکومت سے قادیانیوں کوغیرمسلم قراردینے کامطالبہ کررہے تھے۔ ربوہ میں رونما ہونے والے راحت ملک کے بغاوت والے واقعہ کادینی حلقوں میں خوب چرچاہوا۔اس تناظرمیں راحت ملک کوان حلقوں میں کافی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ابھی کچھ دن گزرے تھے کہ انہیں شام کودفترپہنچتے ہی پیغام ملاکہ مولانا عطااﷲشاہ بخاری صاحب ان سے ملناچاہتے ہیں۔وہ بڑے حیران ہوئے کہ ملک کی اتنی بڑی شخصیت اورمجھ جیسے معمولی اورگمنام بندے سے کیوں ملناچاہتی ہے۔ابھی انہوں نے معمول کاکام شروع کیاتھا کہ دوباریش افرادان سے ملنے کیلئے نیوزروم میں آگئے۔انہوں نے راحت ملک کوبتایاکہ انہیں مولاناعطااﷲشاہ بخاری نے ان کی طرف بھیجاہے اوروہ مولاناسے ملاقات کرانے کیلئے انہیں ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔راحت ملک نے اپنے نیوزایڈیٹرسے مختصر رخصت حاصل کی اوران باریش حضرات کے ساتھ چل پڑے۔وہ دفترکی سیڑھیاں اترے تونیچے ایک تانگہ کھڑاتھا۔وہ تینوں اس تانگے میں سوار ہو گئے۔تانگہ لاہورکی مختلف شاہراؤں سے ہوتاہواگڑھی شاہوکی فیکٹری نما ایک قدیم عمارت کے باہرجاکررکا۔راحت ملک بیان کرتے ہیں کہ’’ اس پرانی عمارت کے بڑے سے گیٹ پرایک معمرباریش بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جودھوتی اورایک سلوکا(بنیان)پہنے ہوئے تھے۔ میں نے سوچاشایدیہ بزرگ اس فیکٹری کے چوکیدارہیں۔میرے ساتھ آنے والے دونوں افرادنے بزرگ کوادب سے سلام کیااور میر ا تعارف کروایا کہ یہ راحت ملک ہیں۔انہوں نے ہدایت کی کہ بچے (راحت ملک)کواندربٹھاؤ۔وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے جہاں چارپائیوں بچھی ہوئی تھیں۔میں ایک چارپائی پربیٹھ گیااورمولاناسے ملاقات کاانتظارکرنے لگا۔میں مولاناکاایک تصوراتی خاکہ بنارہاتھا کہ ابھی مولانااپنے محافظوں کے حصارمیں تشریف لائیں گے توان کی
شان وشوکت اوررعب ودبدبہ قابل دید ہوگا۔کچھ دیربعدوہی بزرگ جن کومیں نے مرکزی گیٹ پربی دیکھاتھادیگرافرادکے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے۔میں ان کے احترام میں اٹھ کرکھڑاہوگیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کرمیراماتھاچوم لیااورفرمایا:بیٹا!تم نے تووہ کام کردکھایا ہے جوہم نہیں کرسکے۔‘‘
راحت ملک کی جوشیلی خطابت ان کی قائدانہ صلاحیتوں کاایک نمایاں وصف تھا۔انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کیلئے کام کیااوران کی سیاسی جدوجہدمیں پوری لگن کے ساتھ کام کیا۔انہوں نے سیاسی زندگی کے اوائل میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیارکی اورانقلابی سوچ رکھنے والے ایئرمارشل (ر)اصغرخان کے ہراول دستہ میں شامل رہے۔کچھ عرصہ بعدپارٹی کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف کے باعث اس سے علیحدگی اختیاکرلی۔پھرپاکستان پیپلزپارٹی کاسیاسی منشوراوربالخصوص محروم طبقات کیلئے آوازاٹھانے کاعزم ان کے دل کوبھایاتواس میں شامل ہوگئے۔کئی سال تک پارٹی کیلئے ان تھک کام کیا۔گجرات سٹی کی تنظیم کے صدروسیکرٹری جنرل کے عہدے پر بھی منتخب ہوئے۔ مقامی قیادت کے رویے سے نالاں ہوکراس پارٹی کوبھی خیربادکہہ دیا۔چودھری برادران نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ان کے عروج کے دورمیں ان کی سیاسی حمایت کرتے رہے مگرکوئی پارٹی عہدہ قبول نہ کیا۔تاہم ان کی اہلیہ اب بھی مسلم
لیگ ق کی سر گرم کارکن اور عہدیدارہیں۔
لیگ ق کی سر گرم کارکن اور عہدیدارہیں۔
راحت ملک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔غزل اورنظم کوذریعہ اظہاربنایا۔زیادہ رجحان نظم کی طرف رہا۔ان کی شاعری کابیشتر حصہ انقلابی اور مزاحمتی نظموں پرمبنی ہے۔رومانی شاعری نہ ہونے کے برابرہے۔ان کی نظمیں سیاسی جلسوں،عوامی تقریبات اورنجی محفلوں میں بہت پسندکی جاتی تھیں۔تقاریرکے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری کوبھی انقلابی آوازبلندکرنے اوراستحصالی قوتوں کی گوش مالی کیلئے استعمال کیا۔راحت ملک اردوزبان پرخاصی دسترس رکھتے تھے۔الفاظ کے چناؤاوراستعمال کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ان کی تراکیب اوراستعارے منفرد اوربے مثال ہیں۔
ان کا بنیادی پیشہ صحافت تھا۔طویل عرصہ تک مقامی روزناموں کیلئے کالم نگاری اورسیاسی قطعات لکھتے رہے۔اداریہ لکھنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔وہ گجرات کی صحافت میں نیم خواندہ صحافیوں کی آمدسے سخت نالاں رہتے اورانہیں انگوٹھاچھاپ صحافی پکاراکرتے تھے۔اس پر انہوں نے کئی نظمیں اورکالم بھی لکھے۔ایک دفعہ صحافی دوستوں کے اصرارپرگجرات پریس کلب کے الیکشن میں حصہ لیاتوبھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔صدربننے کے بعدانہوں نے پریس کلب کے آئین کوازسرنومرتب کرنے،صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کااہتمام کرنے اوراخبارات کوسٹاف بھرتی کرنے کیلئے کم از کم تعلیمی معیارمقررکرنے جیسی اصلاحات کی کوشش کی مگرانہیں زیادہ پزیرائی نہ مل سکی جس پر دل برداشتہ ہوکرانہوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
بطورلیبرلیڈران کی خدمات قابل ذکرہیں۔سب سے پہلے انہوں نے گجرات کی سروس انڈسٹری کے مزدوروں کے حقوق کی آوازبلندکی۔ بعدازاں وہ مزدوروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ان کیلئے لہوگرمانے والی نظمیں لکھتے رہے۔انہوں نے مزدوروں کی ایک تنظیم بھی قائم کی جس کا باقاعدہ ایک دفترمیں محلہ مسلم آبادمیں قائم کیاگیاتھا۔مختلف اداروں کے مزدوراپنے انفرادی اوراجتماعی مسائل کیلئے ان کے پاس آتے تھے۔وہ طویل عرصہ تک اپنے کالموں،اپنی سیاسی جدوجہداورشاعری میں مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے رہے۔انہیں اکثر لوگ گجرات کا مزدورلیڈربھی قراردیتے ہیں۔
راحت ملک روایتی شاعروں کے برعکس مشاعروں سے اجتناب کیا کرتے تھے۔وہ عوام کے درمیان بیٹھ کراپنی شاعری سنانے میں بے انتہا فرحت محسوس کرتے تھے۔ان کا بلاکاحافظہ تھا،اپنی ساری شاعری زبانی یادتھی۔لوگ نجی محفلوں میں ان سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کرتے توانہیں کبھی ڈائری پاس رکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔
راحت ملک نے احمدیت سے بغاوت کی توانہیں اپنی خاندانی وراثت سے یکسر محروم ہوناپڑا۔اس کے بعدلاہورچلے گئے۔وہاں اخبارات میں ملازمتیں کرتے رہے جس سے گزارہ ہوتارہا۔ریڈیوپاکستان میں بھی بطورسکرپٹ رائیٹرکام کیا۔اس کے علاوہ اپنا ادبی میگزین ’’جرس ڈائجسٹ‘‘نکالا۔ پھر جب گجرات آگئے تومالی حالات مزیدابترہوگئے۔صحافت ،شاعری اورفن خطابت کے علاوہ کوئی کام نہ آتاتھالہذااس کی آمدنی پرہی انحصارکرتے رہے۔سگریٹ نوشی کے سواکوئی لت نہ تھی اس لیے طویل عمری میں بھی بڑے مستعد،صحتمنداورفٹ رہے۔تاہم ایک ناگہانی حادثہ میں خالق حقیقی سے جاملے۔اللہ ان کو غریقِ رحمت فرمائے،آمین
****
Comments
Post a Comment