Mushtaque Choudhary: A Legendary Drama Producer/Director at Pakistan Television Lahore By Muhammad Yoosuf Bhutta Mushtaque Choudhary (Urdu: مشتاق چودھری ) was a revered Television Producer well - known for directing comic plays like Sheeda Talli , Shab Daig and Haveli, etc. He also produced dozens of other Urdu and Punjabi drama series and serials for state-owned Pakistan Television and private TV channels. In addition to that, he also produced many single plays, songs, music videos, magazine programs, Qawwalis , talk shows, children's programs, documentaries, and high-profile interviews. Early Life and Education: Mushtaque Choudhary was born on 13th December 1941 in a small village Ganja ( گنجہ ), near Lalamusa, District Gujrat, in British India. He was the only son of his parents. He belonged to a feudal Gujjar family. He was raised with special care and support. He got his early education from his village and completed his secondary school education at Zamindar High S
Posts
- Get link
- Other Apps
یکم مارچ1928ء :گجرات کے سپوت مقبول لوک گلوکارعالم لوہارکی سالگرہ رپورٹ:محمدیوسف بھٹہ ضلع گجرات کا سپوت،دیہی محفلوں کوگرمانے والا لازوال فنکاراورپنجاب کی ثقافت کوزندہ رکھنے والا محمد عالم لوہاریکم مارچ 1928کوضلع گجرات کے شہرلالہ موسیٰٰ کے ایک قریبی گاؤں آچھ میں پیداہوا۔عالم لوہاردیہات کے دیہاتی کلچر کی آواز تھا جس کے لوگ گیتوں پرکسان جھوم جھوم جاتے تھے۔ وہ پاکستان کے لوک بے حدمقبول گلوکار اور موسیقار تھےجنہیں پاکستانی لوک موسیقی کا شہنشاہ بھی کہا جاتا تھا۔وہ لوک موسیقی کی صنف جگنی کے بانی ہیں اور جگنی ہی اُن کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہے۔وہ لوہارخاندان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اورانہوں نے اسے اپنے نام کا مستقل حصہ بنالیاتھا۔ بچپن میں ہی عالم نے پنجابی کہانیوں پرمبنی شاعری کے مجموعے اور صوفیانہ کلام پڑھا اور بچپن ہی سے گانا شروع کر دیا۔ عالم لوہار نے پنجابی وار اگائے اورانہیں گانے کے ایک نیا انداز ایجاد کیا۔انہوں نے لوک کہانیاں گانے کا اپنا الگ اندازاپنایا جس نے انہیں اس وقت کامقبول ترین لوک گلوکاربنادیا۔ جب وہ پنجاب کے مختلف علاقوں کے دیہاتوں اور قصبوں کا دورہ کرتے جہاں وہ اپنے تھی
- Get link
- Other Apps
گجرات کے سپوت مستنصرحسین تارڑ:یکم مارچ 1939 کوپیداہوئے محمدیوسف بھٹہ مستنصرحسین تارڑ ضلع گجرات کی تحصیل پھالیہ میں واقع گاؤں جوکالیاں سے تعلق رکھتے ہیں ۔لیکن وہ اپنی کتاب لاہور آورگی کے دیباچے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ یکم مارچ 1939 کو گکھڑ منڈی میں اپنے ننھیال کے گھر پیدا ہوئے۔ لیکن ان کی پرورش لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ ہوئی جس کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے تھا۔ ان کے والد رحمت تارڑ نے "کسان اینڈ کمپنی" کے نام سے ایک چھوٹی سی زرعی بیج کی دکان چلائی جو بعد میں اس شعبے میں ایک بڑا کاروبار بن گیا۔ تارڑ کی تعلیم رنگ محل مشن ہائی سکول اور مسلم ماڈل ہائی سکول میں ہوئی جو دونوں لاہور میں ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بیرون ملک رہتے ہوئے اپنا زیادہ وقت فلمیں دیکھنے، دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور کتابیں پڑھنے میں صرف کیا۔ 1958 میں انہوں نے ماسکو میں ورلڈ یوتھ فیسٹیول میں شرکت کی اور اپنے تجربے کی بنیاد پر فاختہ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔وہ بیک وقت ایک پاکستانی مصنف، سیاحت کے شوقین، کوہ پیما، ناول نگارڈرامہ نگار،، کالم نگار، ٹی وی میزبان، اور سا
- Get link
- Other Apps
مارچ: اُردوکے معروف شاعرناصرکاظمی کی پچاسویں برسی 2 محمدیوسف بھٹہ سید ناصر رضا کاظمی پاکستان کے ایک مقبول اردو شاعر تھے۔ وہ 8 دسمبر 1925 کو امبالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمد سلطان کاظمی برٹش انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے اور والدہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں جوانبالہ کے مشن گرلز اسکول میں ٹیچر تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰیٰ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں پڑھیں۔ بچپن میں پڑھے گئے داستانوی ادب کا اثر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے، اور دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گذرا تھا۔ آگے کی تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے تھے۔ ناصر کاظمی وہاں کے ایک ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر بات کرتے تھے۔ انہوں نے بی اے کی تعلیم کے لیے گور
- Get link
- Other Apps
28 فروری:آج کا دن مسلم تاریخ کا وہ افسوسناک دن ہے جب عیسائی بادشاہ کاسٹائل نے مسلمانوں سے سپین کا شہرجین دوبارہ چھین لیا تحقیق: محمدیوسف بھٹہ اس دن (28 فروری 1246 عیسوی {2/3 شوال، 643 ہجری)، جدید دور کے جنوبی وسطی اسپین میں اندلس کا شہر جان (عربی میں خيّان) کاسٹائل کی عیسائی بادشاہی کے قبضے میں آگیا۔یہ نام غالباً رومن نام ولا گیلینا (گیئس کا ولا) سے ماخوذ ہے۔ اسے اندلس کے زمانے میں جیان کہا جاتا تھا۔شہر کے باشندوں کو Jienenses کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1246 میں جین کے کاسٹیلین سے گرنے کے بعد، ایک مقامی شیخ نے شہر کی مسجد میں جمعہ کے آخری خطبہ کا اختتام افسوس کے ساتھ کیا، "یہ آخری [مسلم] خطبہ ہے جس کی کبھی بھی جین میں تبلیغ کی جائے گی۔"اس کے وعظ کو 700 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ Jaén ایک ایسا شہر ہے جہاں اندلس سے محبت کرنے والوں کولازماً جانا چاہیے، لطف اندوز ہونا چاہیے، اور - اگر ممکن ہو تو - اسے جاننے کے لیے کافی وقت گزارنا چاہیے۔ نہ صرف اس شہر کی ایک قدیم اور دلچسپ تاریخ ہے بلکہ قلعہ جو اس کی گھومتی ہوئی گلیوں کے اوپر ٹاورزبناتا ہے، وہاں موجود اندلس کے انتہائی شاندار
Folk Tales of Kashmir (Story1: saat tangoon wala hewan)
- Get link
- Other Apps
Raj Mehal Begum second wife oa Mughal Emperor Aurangzeb Alamgir
- Get link
- Other Apps