مارچ: اُردوکے معروف شاعرناصرکاظمی کی پچاسویں برسی 2  

محمدیوسف بھٹہ

سید ناصر رضا کاظمی پاکستان کے ایک مقبول اردو شاعر تھے۔ وہ 8 دسمبر 1925 کو امبالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمد سلطان کاظمی برٹش انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے اور والدہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں جوانبالہ کے مشن گرلز اسکول میں ٹیچر تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰیٰ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں پڑھیں۔ بچپن میں پڑھے گئے داستانوی ادب کا اثر ان  کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے، اور دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گذرا تھا۔ آگے کی تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے تھے۔ ناصر کاظمی وہاں کے ایک ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر بات کرتے تھے۔ انہوں نے بی اے کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر ناسازگار حالات کی وجہ سے بی اے پورا کیے بغیرتعلیم ترک کرناپڑی۔

ناصر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ ان کی شاعری میں عشق کی بڑی کار فرمائی رہی۔ مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ چنانچہ وہ پوری طرح جوان ہونے سے پہلے ہی گھائل ہو چکے تھے۔ ان کا بیان ہے "عشق، شاعری اور فن یوں تو بچپن سے ہی میرے خون میں ہے، لیکن اس ذوق کی پرورش میں  ایک دو معاشقوں کا بڑا ہاتھ رہا" پہلا عشق انھوں نے تیرہ سال کی عمر میں حمیرہ نام کی اک لڑکی سے کیا ۔اور اس کے عشق میں  دیوانے ہو گئے۔ ان کے کالج کے ساتھی اور دوست جیلانی کامران کا بیان ہے، "ان کا پہلا عشق حمیرہ نام کی اک لڑکی سے ہوا۔ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرہ حمیرہ کہہ رہا تھا۔ یہ 1944 کا واقعہ ہے" لیکن اس کے بعد انھوں نے جس لڑکی سے عشق کیا اس کا سراغ کسی کو نہیں لگنے دیا۔ بس وہ اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو گھُلاتا رہا۔ 1952 میں انھوں نے بچپن کی اپنی اک اور محبوبہ شفیقہ بیگم سے شادی کر لی جو ان کی خالہ زاد تھیں۔ ناصر کا پچپن لاڈ پیار میں گزرا تھا اور کوئی محرومی ان کو چھو بھی نہیں گئی تھی۔ کبوتر بازی، گھوڑ سواری، سیر سپاٹا، ان کے مشاغل تھے لیکن جب پاکستان پہنچ کر ان کی زندگی تلپٹ ہو گئی تو انھوں نے اک مصنوعی اور خیالی زندگی میں پناہ ڈھونڈی۔

کاظمی صاحب نے اپنی شاعری میں سادہ الفاظ استعمال کیے جن میں "چاند"، "رات"، "بارش"، "موسم"، "یاد"، "تنہائی"، "دریا"وغیرہ  شامل ہیں اور انہوں اپنے اسلوب شاعری سے ان الفاظ میں جان ڈالی۔ وہ اپنی شاعری میں چھوٹی بحریا چھوٹامصرعہ  استعمال کرنے کے لیے مشہور تھے۔ ان کی شاعری  پاکستان ٹیلی ویژن (PTV) کے ٹی وی شوز کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بالی ووڈ فلموں میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔

ناصر کاظمی اگست 1947 میں امبالہ، ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور، پاکستان آگئے لیکن جلد ہی انھیں یکے بعد دیگرے والدین کے چل بسنے کا غم بھی جھیلنا پڑا۔ لاہور میں انہوں نے ادبی رسالوں اوراق نو اور خیال کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹاف ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔1957ءمیں“ہمایوں”کے بند ہونے پر ناصر کاظمی محکمہ دیہات سدھار سے منسلک ہو گئے۔ اس کے بعد وہ زندگی کے باقی سال ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔

 ان کے بارے میں اکثر ایک اداس شاعر کے طور پر سوچا جاتا تھا، حالانکہ ان کی زیادہ تر شاعری رومانوی خوشی اور امید پر مبنی ہے۔

ناصر کاظمی اختر شیرانی کی رومانوی شاعری سے متاثر تھے اور وہ  شاعر حفیظ ہوشیارپوری سے اپنی شاعری میں اصلاح اوررہنمائی بھی لیاکرتے تھے۔ وہ میر تقی میر کی شاعری کےبھی بڑےمعترف تھے۔

ان کی نظموں کے کچھ مجموعے کتابوں کے طور پر شائع ہوئے، جن میں برگِ نو (1952)، دیوان (1972)، پہلی بارش (1975)، ہجر کی رات کا ستارہ، اور نشاطِ خواب (1977) شامل ہیں۔ اپنی موت سے چند روز قبل کاظمی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا:

"گھڑ سواری، شکار، گاؤں میں گھومنا، دریا کے کنارے چہل قدمی، پہاڑوں کی سیر کرنا وغیرہ میرے پسندیدہ مشغلے تھے اور شاید یہی وہ وقت تھا جب میرے ذہن کو فطرت سے محبت کرنے اور شاعری کے اظہار سے قریب ہونے کی پرورش ملی۔ شوق کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے، جیسے گانا، شاعری، شکار، شطرنج، پرندوں سے پیار، درختوں سے پیار۔... میں نے شاعری اس لیے لکھنا شروع کی کہ میں ان تمام خوبصورت چیزوں کی عکاسی کرتا تھا، جو میں دیکھتا ہوں اور جو فطرت میں ہیں، میرے ہاتھ میں نہیں ہیں اور مجھ سے دور چلے جاتے ہیں وقت کے چند لمحے جو مر جاتے ہیں انہیں زندہ نہیں کیا جا سکتا مجھے لگتا ہے کہ میں شاعری میں زندہ رہ  سکتا ہوں اسی لیے میں نے  شاعری شروع کی۔ٗٗ


ناصرکاظمی کی چندمشہورغزلیں:

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

اپنی دھن میں رہتا ہوں

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے


Comments

Popular posts from this blog

Rahat Malik: Aik hama jehat shakhsiat(راحت ملک:ایک ہمہ جہت شخصیت)

Moazzam Ali: Aik darvesh siffat news hawker(معظم علی:ایک درویش صفت نیوزھاکر)

Urdu kay sada bahar ashaar(اُردوکے سدابہاراشعار:جوضرب المثل بن گئے)