یکم مارچ1928ء :گجرات کے سپوت مقبول لوک گلوکارعالم لوہارکی سالگرہ

رپورٹ:محمدیوسف بھٹہ
ضلع گجرات کا سپوت،دیہی محفلوں کوگرمانے والا لازوال فنکاراورپنجاب کی ثقافت کوزندہ رکھنے والا محمد عالم لوہاریکم مارچ 1928کوضلع گجرات کے شہرلالہ موسیٰٰ کے ایک قریبی گاؤں آچھ میں پیداہوا۔عالم لوہاردیہات کے دیہاتی کلچر کی آواز تھا جس کے لوگ گیتوں پرکسان جھوم جھوم جاتے تھے۔
وہ پاکستان کے لوک بے حدمقبول گلوکار اور موسیقار تھےجنہیں پاکستانی لوک موسیقی کا شہنشاہ بھی کہا جاتا تھا۔وہ لوک موسیقی کی صنف جگنی کے بانی ہیں اور جگنی ہی اُن کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہے۔وہ لوہارخاندان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اورانہوں نے اسے اپنے نام کا مستقل حصہ بنالیاتھا۔ بچپن میں ہی عالم نے پنجابی کہانیوں پرمبنی شاعری کے مجموعے اور صوفیانہ کلام پڑھا اور بچپن ہی سے گانا شروع کر دیا۔
عالم لوہار نے پنجابی وار اگائے اورانہیں گانے کے ایک نیا انداز ایجاد کیا۔انہوں نے لوک کہانیاں گانے کا اپنا الگ اندازاپنایا جس نے انہیں اس وقت کامقبول ترین لوک گلوکاربنادیا۔ جب وہ پنجاب کے مختلف علاقوں کے دیہاتوں اور قصبوں کا دورہ کرتے جہاں وہ اپنے تھیٹرمیں پرفارم کرتےتوان کے طرزگائیکی کے شائقین کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچ جاتی۔ وہ وارث شاہ کی ہیر کے ساتھ دوسرے گانوں جیسے سیف الملوک کے لیے مشہور ہیں۔ اپنا پہلالبم 13 سال کی عمر میں ریکارڈ کروایا اور اپنے پورے کیرئیر میں 15 گولڈ ڈسک ایل پیز (ریکارڈ سیلز) حاصل کیں جن میں بنیادی طور پر جگنی (1965)، سیف الملوک (1948) قصہ یوسف زلیخا (1961)، بول مٹی دے بوا (1964)، دل والا دکھرا (1975)شامل ہیں۔ یاد میں جب وہ ایک حادثے کا شکار ہوئےاور ٹانگ میں چوٹ آئی اور لوگوں کو مدد کے لیے پکارا لیکن کوئی مدد کے لیے نہ آیا تو انہوں نے ایک گانا تخلیق کیا.... واجاں ماریاں بلایاکئی وارمیں (1977)، قصہ مرزا صاحباں (1967)، قصہ ہرنی (1963)، ماں دا پیار (1971)، ہیر (1969)، قصہ سسی پنوں (1972)، قصہ بارہ ماہ (1974)، جس دن میرا ویاہ (1973)، قصہ دلا بھٹی (1959)، مرزےدی ماں۔ (1968)
اپنے بچپن میں، وہ صوفی شاعری (صوفیانہ کلام)، پنجابی لوک کہانیاں پڑھا کرتے تھے اور چھوٹے بچے کے طور پر مقامی محفلوں میں شرکت کرتے تھے جو عظیم شاعروں کے اقتباسات کو پڑھنے میں صرف ایک آوازی فن کا اظہار کرتے تھے۔ دیہی پس منظر سے باہر ہونے والے بہت سے اجتماعات سےایک عظیم گلوکار ابھرا جو اپنے سامعین کو خوشی، سکون، خوشی اور اداسی کے عناصر سے متاثر کر سکتا تھا۔ پھر اس نے میلوں اور محفلوں میں باقاعدگی سے جانا شروع کیا اور ان پرفارمنس کے ساتھ وہ 1970 کی دہائی میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ سننے والے گلوکار بن گئے۔
1970 کی دہائی میں، عالم لوہار نے ان ممالک میں مقیم جنوبی ایشیائی کمیونٹیز کی تفریح ​​کے لیے برطانیہ، کینیڈا، ناروے، امریکا اور جرمنی سمیت مختلف ممالک کا دورہ کرنا شروع کیا۔
موت:
عالم لوہار کی موت 3 جولائی 1979 کو شام کی بھٹیاں کے قریب ایک حادثے میں ہوئی جب ایک بھاری بھرکم ٹرک ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا کیونکہ ٹرک ان کی کار کو اوور ٹیک کرنے میں ناکام رہا۔ انہیں پاکستان میں جی ٹی روڈ پر لالہ موسیٰ کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان محمد ضیاء الحق نے عالم لوہار کو 1979 میں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ برائے فنون اور تھیٹر پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔

Comments

Popular posts from this blog

Rahat Malik: Aik hama jehat shakhsiat(راحت ملک:ایک ہمہ جہت شخصیت)

Moazzam Ali: Aik darvesh siffat news hawker(معظم علی:ایک درویش صفت نیوزھاکر)

Urdu kay sada bahar ashaar(اُردوکے سدابہاراشعار:جوضرب المثل بن گئے)