UOG aur community development main kirdar
(Bazeechaa)بازیچہ
وائس چانسلرصاحب !گجرات یونیورسٹی نے کیمونٹی ڈویلپمنٹ میں کیاکرداراداکیاہے؟
محمدیوسف بھٹہ
گزشتہ روزیونیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلرڈاکٹرضیاالقیوم نے ’’مقبوضہ پریس کلب ‘‘ گجرات کادورہ کیااورمبینہ طورپرایک سیمینار بعنوان ’’یونیورسٹی آف گجرات کاکمیونٹی ڈویلپمنٹ میں کردار‘‘ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ایک مقامی روزنامہ نے اس کی ضرورت سے زیادہ کوریج کی جس کی زبان بہت شستہ ،مہذب اورادبی ہے ۔لگتاہے کسی رپورٹر نے نہیں بلکہ کسی ادیب نے خبریں بنائی ہیں لیکن اسے پڑھ کر مجھے انتہائی افسوس ہوااورمیں اس پراپناردعمل دینے پرمجبورہوگیاہوں۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ گجرات شہرمیں دوپریس کلب قائم ہیں اورایک پرکچھ افرادکابزورقبضہ ہے جوہرسال عہدوں کی بندربانٹ کرلیتے ہیں لہذایہ ادارہ متنازعہ بن چکاہے۔دوسراپریس کلب بھی ممبران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے غیرمتحرک ہے لیکن اس میں ممبران کی تعداداول الذکرپریس کلب سے بھی زیادہ ہے۔وائس چانسلرصاحب اس حقیقت سے بے خبرکیوں ہیں؟
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ یہ تقریب ہرگزکوئی سیمینارنہ تھی۔نہ اس کافارمیٹ سیمیناروالاتھا،نہ اس کے شرکاء موضوع سے مطابقت رکھنے والے ماہرین تھے اورمزیدافسوس کی بات یہ ہے کہ پوری تقریب میں سوائے ’’ستائشِ باہمی‘‘کے، اصل موضوع پرکوئی بات نہیں ہوئی۔میں تواس موضوع سے اتفاق ہی نہیں کرتاکہ یونیورسٹی نے گجرات میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ میں ابھی تک کوئی کردارادا کیاہے ۔ مجھے اس بات کا بھی افسو س ہواکہ یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلرکے مشیربھی حسب سابق محض خوشامداور’’واہ واہ‘‘ پر ہی مامورہیں اورانہیں حقائق سے آگاہ کرناگناہ سمجھتے ہیں۔کاش’’ مقبوضہ پریس کلب ’’کے ممبران کی سوچ اور ضمیر آزاد ہوکرفیصلے کریں اوروہ اپنی کمیونٹی کے حقیقی نمائندے بن کردکھائیں۔ اور یونیورسٹی کوکورسزڈیزائن کرنے اوربالخصوص ابلاغ عامہ کے کورس کوگجرات کی صحافت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں ان کی رہنمائی کریں۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس تقریب کواستفادہ کی بجائے محض واہ واہ کانادرموقع بنادیاگیا۔ یونیورسٹی کاقیام 2004ء میں ہوا۔2005ء میں یہاں انتہائی کمزور،ناتجربہ کاراورنامکمل فیکلٹی کے ساتھ ابلاغ عامہ کاشعبہ قائم کردیاگیا۔گزشتہ دس سال کے دوران ایک طرف فیکلٹی میں کچھ بہتری آئی اور دوسری طرف سینکڑوں(یاشایدہزاروں)طلباء وطالبات نے یہاں سے ابلاغ عامہ میں ایم اے (دوسالہ پروگرام)اوربی ایس(چارسالہ پروگرام)کی ڈگریاں حاصل کیں۔انتہائی افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ آج تک اس شعبے کاکوئی بھی فارغ التحصیل کسی اچھے ادارے (اخبار،ٹی وی چینل یاریڈیوسٹیشن)میں مناسب جگہ نہیں حاصل کرسکا۔اس کی وجہ میرے خیال سے ان کی ناتجربہ کاراورکمزورفیکلٹی کی وجہ سے غیرمعیاری تربیت ہے۔سابق وائس چانسلرنے اپنی ذاتی پروجیکشن اورکردہ ناکردہ معمولی کاموں کوبڑھاچڑھاکرپیش کرنے کیلئے سات آٹھ افرادپرمشتمل میڈیاسیل قائم کیاجس پرایک اندازے کے مطابق ماہانہ لاکھوں روپے خرچ آرہاہے ۔اس سیل کے ذمہ جھوٹی پبلسٹی کرنا،مبالغہ پرمبنی پریس کوریج حاصل کرنااوریونیورسٹی کی غلط پالیسیوں کومیڈیاکی تنقیدسے بچانا رہاہے۔اسی لیے یونیورسٹی کی کسی تقریب میں بھی میڈیاکودعوت نہیں دی جاتی ۔اگر بلایابھی جائے توصرف چندپسندیدہ صحافیوں کوبلالیاجاتاہے لیکن کوریج کیلئے انہیں صرف میڈیاسیل کی پریس ریلیزاپنے اخباروں کوبھیجنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔موجودہ وائس چانسلرکے دورمیں بھی یہ سلسلہ کم وبیش اسی طرح جاری ہے جس سے یونیورسٹی کاصرف سرکاری پریس ریلیزہی لوگوں کے سامنے آتاہے اورمثبت تنقیدکے ذریعے پالیسیوں کی بہتری کاباب بندہوجاتاہے۔
اگرابلاغ عامہ کاشعبہ شروع دن سے ہی اپنے طلباء طالبات کی تحقیق میں حوصلہ افزائی کرتاتووہ گجرات کی مقامی صحافت کے غیرپیشہ ورانہ طرزعمل ،مشکلات اورترقی کے ممکنہ طریقوں پرریسرچ کرکے ان کی حقیقی مددکرتامگرآج تک کسی نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔مقبوضہ پریس کلب کے چندممبران کوکچھ عرصہ قبل سابق وائس چانسلرنے تربیتی کورس کے نام پرپیسے لے کرجوسرٹیفکیٹ دیے وہ ایک الگ لطیفہ ہے۔نہ کوئی تربیت ہوئی نہ کسی کوجرنلزم کی الف بے کی تعلیم دی گئی ۔شرکاء وی سی کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ لے کرہی پھولے نہ سمارہے تھے۔کسی کوبھی اس بات پرذراسی شرمندگی نہ ہوئی کہ ہم نے نہ کچھ سیکھا ،نہ ہمارے کام میں کوئی بہتری آئی توپھریہ سرٹیفکیٹ کیامعنی رکھتے ہیں۔میں مزیدپرانے قصے کھولنے کی بجائے اب موجودہ وائس چانسلرصاحب کی خدمت میں چندگزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، کمیونٹی کیلئے واقعی کچھ کریں اورپھردعویٰ کریں کہ اس کی ترقی میںیونیورسٹی کایہ کردار ہے:
1۔دنیابھرمیں آج کے دورمیں کمیونٹی جرنلزم کوبہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اوریہ معاشروں کی ترقی اورمسائل کوگراس روٹ لیول سے اجاگرکرنے میں پیش پیش ہے۔یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کمیونٹی جرنلزم کسی علاقے کی ترقی(کمیونٹی ڈویلپمنٹ) میں کلیدی کرداراداکرتی ہے۔گجرات کے مقامی اخبارات لگ بھگ کمیونٹی جرنلزم ہی کررہے ہیں مگران کوکوئی پیشہ ورانہ تعلیم اورتربیت حاصل نہیں ہے۔ اگرآپ گجرات کے صحافیوں سے واقعی ہمدردی رکھتے ہیں توان کیلئے کمیونٹی جرنلزم کا خصوصی کورس ڈیزائن کروائیں جوہمارے خطے کی ضروریات اورتقاضوں کوپیش نظررکھ کرمرتب کیاجائے ۔امریکی یونیورسٹیوں کے ہینڈآؤٹ کاپی پیسٹ کرنے کارجحان بندکیاجائے۔اس کورس سے قبل مقامی صحافت کی تاریخ،ترقی کے مدارج،مشکلات،خرابیوں اورمسائل پربھی ایک مفصل ریسرچ کااہتمام کیا جائے جس کے بعدمجوزہ کورس کوزیادہ موثر اورمفیدبنایاجاسکتاہے۔بدقسمتی سے گجرات کے صحافیوں میں حصولِ علم کارواج نہیں ہے اورشایدہی کسی صحافی نے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہو۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت کم لوگوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اورگنے چنے افرادمیٹرک سے زیادہ تعلیم رکھتے ہیں ۔ اس لیے اس پہلوکو بھی کورس مرتب کرتے ہوئے پیش نظر رکھاجائے۔اس طرح یہ صحافی اپنے معاش کیلئے زردصحافت اورغیراخلاقی وغیرقانونی ہتھکنڈوں سے کام لینے کی بجائے باعزت روزگارحاصل کرسکیں گے۔
2۔یونیورسٹی کے شعبوں میں تیزی سے اضافہ کرنافائدہ مندنہیں ہے۔کوانٹٹی کی بجائے کوالٹی پرتوجہ دی جائے اوراپنی تعلیم وتدریس کامعیاربہتربنایاجائے تاکہ قومی ادارے یواوجی کی ڈگری کوعزت اوروقار سے دیکھیں ۔گولڈمیڈل اورڈگریاں حاصل کرنے والوں میں اس کی اہلیت کامعیاربھی قائم کیاجائے۔
3۔مقامی صنعتوں کی ورک فورس کی آؤٹ پٹ کی کوالٹی میں بہتری لانے کیلئے بھی پیشہ ورانہ ڈپلومہ کورس تیارکیے جائیں جوگجرات چیمبراوران صنعتوں کی تنظیموں کے تعاون سے ہنرمندوں کیلئے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
4۔میڈیاسیل پرلاکھوں روپے ماہانہ خرچ کرنے کی بجائے یونیورسٹی پروگراموں کی تشہیرکیلئے اپنے ایف ایم ریڈیو،نیوزبلیٹن اورمقامی اخبارات پرانحصار کیاجائے اوریہ فنڈزمقامی صحافت/کمیونٹی جرنلزم کی بہبوداورترقی کیلئے خرچ کیے جائیں۔
5۔ عوامی امنگوں کے خلاف گجرات شہرکے جوسرکاری کالجزآغازمیں جبراً یونیورسٹی کے ساتھ ملالیے گئے تھے ان کواب آزادکردیاجائے ۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان اداروں (بالخصوص مرغزارکالج اورفاطمہ جناح کالج )کامعیارپہلے سے پست ہواہے۔
6۔یونیورسٹی میں تحقیق کے شعبہ کوزیادہ متحرک کیاجائے اورسوشل سائنسزکے شعبوں کوخاص طورپرگجرات کی تمدنی،صنعتی اورزرعی زندگی کے مختلف پہلوؤں پرتحقیق کی دعوت دی جائے جس کے
نتائج کوشائع کیا جائے اورضلع کی انتظامیہ اورسیاسی عمائدین کوان کی سفارشات سے آگاہ کیاجائے۔
(Published on 25th April 2015)
Comments
Post a Comment