بھٹوکی مختصرسیاسی زندگی کے بڑے کارنامے
بھٹوکی 21سالہ سیاسی زندگی :
ان کے چارسالہ دورِِاقتدارکی کامیابیوں اورناکامیوں کامختصرجائزہ
تحریر:محمدیوسف بھٹہ
ذوالفقارعلی بھٹونے اپنی مختصرسیاسی زندگی (1970-1958)میں جس قدرمقبولیت اورشہرت حاصل کی یہ دنیاکی تاریخ کاایک منفردباب ہے۔اپنے فیصلوں اورمبینہ طورپر جلد مشتعل ہوجانے والی طبع کے باعث انہیں پاکستان میں متنازعہ بنایاگیامگربیرونی دنیامیں وہ اپنی سیاسی بصیرت،جرأت وبہادری،ذہانت،دُوراندیشی اور لازوال قائدانہ صلاحیتوں کے باعث آج بھی قدآوراورناقابل فراموش لیڈر مانے جاتے ہیں۔
بچپن میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کوخط لکھ کرسیاستدان بننے کی خواہش ظاہرکرنے والے ذالفقارعلی بھٹوعرف زلفی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کااظہارزمانہ طالبعلمی سے ہی کردیاتھا۔خط کے جواب میں قائداعظم ؒ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے لکھاتھاکہ سیاست میںآنے کیلئے بہت زیادہ تعلیم حاصل کرو اورپھراس میدان میں قدم رکھنا۔بھٹونے اپنے قائدکی بات پرپوراعمل کیااورپاکستان میں حصول علم کے بعد امریکی وبرطانوی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے قانون اوربین الاقوامی تعلقات پردسترس حاصل کی اورپھرپاکستان
کے میدان سیاست میں قدم رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو5جنوری1928ء کوپیداہوئے۔اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد30سال کی عمرمیں پہلی دفعہ بطوروزیرتجارت1958ء میں سکندرمرزاکی کابینہ میں شامل ہوئے۔ پھر15جون1963ء سے 31اگست1966ء تک ایوب خان کی حکومت میں وزیرخارجہ مقررکیے گئے۔1967ء میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کااعلان کیا۔20دسمبر1971ء سے 13اگست1973تک صدرمملکت رہے۔14اگست1973ء کووزیراعظم کاحلف اٹھایا۔انہوں نے7جنوری1977ء کوقبل ازوقت عام انتخابات کااعلان کردیا۔اس طرح وہ دوبارہ بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کاالزام لگاکرانتخابی نتائج کوتسلیم کرنے سے انکارکر دیااوراحتجاجی تحریک شروع کردی۔وہ 5جولائی1977ء تک وزیراعظم رہے۔یوں بھٹونے 21سالہ سیاسی زندگی کے آخری دوسال جیل میں گزارے اورباقی بچے19 سال ۔ ان کی 19سالہ بھرپور سیاسی زندگی میں انہیں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کرتے ہوئے چارسال ملک کااقتدارسنبھالنے کاموقع ملا۔ان کے چارسالہ دورحکومت کی کامیابیوں اورناکامیوں کاایک مختصرجائزہ پیش خدمت ہے:
1۔نیوکلیئرپروگرام کی بنیاد:
بھٹوکے حامی اورمخالفین ایک بات پرمتفق ہیں کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی تھے جس کے نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پردُوررس نتائج اوراثرات سامنے آئے ۔ کیونکہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے بعدامریکہ سے بھی تعلقات خراب ہوگئے حتہٰ کہ بقول بھٹومرحوم انہیں اس پروگرام کوبندکرنے کیلئے سخت امریکی دباؤاوردھمکیوں کابھی سامنا کرناپڑا۔
2۔1973ء کاآئین:
ہرسیاسی رہنمااس بات سے بھی اتفاق کرتاہے کہ ملکی تاریخ کامتفقہ ،جامع اورغیرمتنازعہ آئین دینا ان کے چوٹی کے کارناموں میں شامل ہے۔آج بھی ہرسیاسی رہنمااورہرسیاسی کارکن 1973ء کے آئین کو مقدم اورمعتبرگردانتاہے۔اگرچہ اس میں جنرل ضیاالحق اورجنرل مشرف سمیت کئی سیاسی حکومتوں نے متعددتبدیلیاں کیں مگراس کے باوجوداب بھی یہ آئین ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کامتفقہ آئین تصورکیاجاتاہے۔
3۔شملہ معاہدہ:جنگی قیدیوں کی رہائی:
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادبھارت کی قیدمیں چلی گئی جس کے بعدانکی رہائی کیلئے ان کے خاندانوں اورسیاسی حلقوں کی جانب سے حکومت پردباؤبڑھ گیا۔بھٹونے اپنی اعلیٰ سیاسی بصیرت اورڈپلومیسی کامظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی ہم منصب اندراگاندھی سے مذاکرات کیے جوشملہ معاہدے پرمنتج ہوئے ۔اس معاہدے کے نتیجہ میں نہ صرف پاکستان کے 93,000جنگی قیدی بھارت کی قیدسے رہاہوئے بلکہ بھارت کے زیرتسلط پانچ ہزار مربع میل کاعلاقہ بھی واپس لے لیاگیا۔ان کی اس کامیابی نے انہیں عوام میں خاصی مقبولیت دلائی۔
4۔اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد:
فروری 1974 ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف بھٹو حکومت کا ایک غیر معمولی کارنامہ تھا بلکہ اس کامیابی نے پاکستان کو اسلامی دنیا کا لیڈر بنا کر پیش کر دیا تھا ۔ بھٹو نے اسلامی دنیا کو متحد کرنے اوراسلامی بلاک کے قیام کے لیے کامیاب پیش رفت کی مگر افسوس ان کے بعد کوئی اور اس مشن کوآگے نہ بڑھا سکا ۔ بھٹو مسلم ممالک کے مابین اتحاد ، مشترکہ دفاع ،مضبوط معاشی روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے ۔
5 ۔چین اور روس کے ساتھ تعلقات :
بھٹو نے امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور فوجی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے چین اور سویت یونین سے تعلقات میں بہتری پیدا کی ۔ چین اور سویت یونین کے ساتھ کئی معاشی اور فوجی معاہدے کیے جس کے نتیجہ میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔
6۔خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع :
بھٹو نے پاکستان کے عوام کی غربت اور ابتر معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ممالک سے افرادی قوت بھجوانے کے معاہدے کیے جس کے نتیجہ میں لاکھوں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کو بیرون ملک روزگار کے مواقع ملے ۔ پاکستان کے زرِمبادلہ میں اضافہ ہوا اور بے روزگاری کی شرح میں کافی حد تک کمی آئی ۔افرادی قوت کی اتنی بڑی کھپت کے بعد پاکستان کی مجموعی معاشی حالت اور فی کس آمدنی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔
7۔ مزدوروں کے حقوق :
بھٹو نے پہلی دفعہ پسے ہوئے طبقہ مزدوروں کو زبان دی ۔ ان کے حقوق کی بات کی اور انہیں حقوق دلائے ۔ ٹریڈ یونین کی اجازت دی ، لیبر پالیسی بنائی ، مزدوروں اور آجروں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی کی ۔
8 ۔ پاکستان اسٹیل :
1972 ء میں بھٹو حکومت نے چین اور سویت یونین کے ساتھ تعلقات بڑھائے ۔ سویت یونین کی مدد سے کراچی میں اسٹیل مل لگائی گئی جس نے پاکستان کی صنعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیااورلاکھوں روزگارپیداکیے ۔
9 ۔ طبی سہولیات کی فراہمی :
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے صحت کے شعبہ میں بھی خاطر خواہ کام کیا ۔ دیہات میں بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت قائم کیے گئے ۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کی تربیت کے لیے کالجز اور دیگر ادارے قائم کئے ۔
10 ۔ تعلیم کے شعبہ کی ترقی :
اساتذہ کی تربیت کے لیے ایلیمنٹری سکولز ، شہری اور دیہی علاقوں میں نئے مڈل سکول ، ہائی سکول ، انٹرمیڈیٹ کالجز کے قیام کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ۔فاصلاتی تعلیم کے آغازنے پاکستان کی شرح خواندگی اورہنرمندوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے وسیع مواقع پیداہوئے۔
11 ۔ میڈیا کی ترقی :
ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری سطح پر نئے ٹی وی او رریڈیو اسٹیشن قائم کیے ۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ۔پی ٹی وی کوتعلیمی مقاصدکیلئے استعمال کرنے کاآغازہوا۔
12۔ باغیوں کی سرکوبی :
ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی سرکوبی کی اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔ اس کے برعکس اس آپریشن نے بلوچ قوم میں کچھ غلط فہمیوں کو بھی جنم دیا ۔
13۔ صنعتوں کی نیشنلائزیشن :
صنعتوں کی نیشنلائزیشن کے بنیادی مقاصد میں بڑھتی ہوئی افراطِ زر کو کنٹرول کرنا بھی شامل تھا مگر اس کے متوقع نتائج برآمد نہ ہوئے یا سوائے اس بات کے کہ افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے کم ہو کر 6 فیصد رہ گئی مجموعی طورپرشعبہ صنعت کوخاصانقصان ہوا۔
بھٹو کی ناکامیاں :
کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے تمام فیصلے ،تمام اندازے یا تمام پالیسیاں 100 فیصد درست ہیں اور ان کے 100 فیصد متوقع نتائج برآمد ہوں گے ۔ بھٹو مرحوم نے بھی جو فیصلے کئے یا پالیسیاں بنائیں یا دعوے کیے ان میں سے بعض کے الٹ نتائج برآمد ہوئے اور بعض کے توقع سے کم نتائج نکلے ۔ ان کی ناکامیوں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے :
1 ۔ صنعتوں کی نیشنلائزیشن :
بھٹو مرحوم کا نعرہ تھا کہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ‘‘۔ اس کے پیش نظر انہوں نے تمام صنعتوں کوقومیانے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا فیصلہ پاکستانی قوم کی معاشرتی ابتری ، کرپشن ، بددیانتی اور کام چوری کے پیش نظر نا موزوں تھا ۔ ان کو اس فیصلے کے منفی نتائج کا پہلے سے اندازہ نہ تھا ۔ صنعتوں کی نیشنلائزیشن کا تجربہ مجموعی طور پر ناکا م رہا۔ نا تجربہ کار ، بد دیانت ، کرپٹ اور نا اہل سرکاری اہلکار صنعتی یونٹوں کو چلانے میں ناکام رہے اور منافع بخش ادارے نہ صرف خسارے میں چلے گئے بلکہ یہ قومی خزانہ پر بوجھ بن گئے ۔اکثر غیر ملکی سرمایہ کار اور بہت سے ملکی بزنس مین اپنا سرمایہ لے کر پاکستان سے باہر چلے گئے ۔حکومت پر سرمایہ کاری کا اعتماد اٹھ گیا ۔ بہت سے چھوٹے سرمایہ کار اور صنعت کار تومکمل طورپرتباہ ہو گئے ۔
2 ۔ تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن :
نیشنلائزڈ سکولوں میں توقعات کے برعکس تعلیمی معیار گر گیا ۔ طلباء کی تعداد بڑھتی گئی اور اس کے مقابلے میں تربیت یافتہ اساتذہ کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں ۔ نصاب میں تبدیلی کے باوجود شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا جو کہ محض ایک فیصد رہی ۔
3 ۔ایف ایس ایف کا قیام :
فیڈرل سیکیورٹی فورس ( ایف ایس ایف ) ایک ظالم فورس ثابت ہوئی جو مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے طویل عرصہ تک زیر حراست رکھتی ۔ سیاستدانوں کو بھی نشانہ بناتی۔ اس فورس کو بھٹو مرحوم کی ذاتی فوج سمجھا جاتا تھا جسے اپوزیشن کے احتجاجی جلسے جلوسوں کو روکنے اور سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے بھی مبینہ طور پر استعمال کیا جاتا رہا ۔ اس فورس کے مظالم نے بھٹو مرحوم کی شہرت اور نیک نامی کو کافی نقصان پہنچایا ۔
4۔فوج کے کردار کا تعین اور تضاد :
ایک طرف بھٹو مرحوم نے 1973 ء کے آئین کے ذریعے سینئر جرنیلوں کے اختیارات کم کرنے اور سیاست میں ان کے کردار کو محدود کرنے کے لیے آرمی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں کیں اور دوسری طرف 1977 ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے والی اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے کے لیے خود ہی فوج سے مددبھی طلب کرلی ۔تاہم ان کے اقتدارکوختم بھی ایک جرنیل نے ہی کیا۔
مجموعی طورپربھٹومرحوم ایک کامیاب سیاستدان تھے تاہم ان کی ناکامیوں میں ان کے چندنااہل مشیروں اورساتھیوں کابھی کردارشامل رہاہے۔بھٹونے ابتداہی سے اپنے جلسوں اورجلوسوں میں اپنے شاندارفن خطابت اوراپنی دلکش شخصیت کے ذریعے لوگوں کواپنی طرف کھینچا۔ان کی شخصیت اوران کی جماعت دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدوں کوچھونے لگی۔انہوں نے ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جس کی جڑیں توبلاشبہ عوام میں تھیں مگروہ اپنے چارسالہ دورحکومت میں معیشت،تعلیم،زراعت،صنعت کی ترقی یامعاشرتی بہبود کیلئے بڑی تبدیلیاں نہ لاسکی۔وہ کوشش کے باوجودپاکستان کے غریب عوام سے کیاہواوعدہ’’روٹی،کپڑااورمکان‘‘پورانہ کرسکے۔
Comments
Post a Comment