(راحت ملک: ایک ہمہ جہت شخصیت(شاعر،صحافی،کالم نگار،دانشور،سیاسی کارکن،انقلابی،باغی،شعلہ بیاں مرحوم کی زندگی کا ایک تابناک پہلوجس سے عام لوگ ناواقف ہیں (تحریر:محمدیوسف بھٹہ) راحت ملک مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ان کی شخصیت کا ہرپہلوبڑاشانداراورتوانائی سے بھرپورتھا۔اگر بنظرِغائر دیکھا جائے توان کی پوری زندگی طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہدکرتے اورمعاشرے کی اونچ نیچ اوردوغلے پن کے خلاف لڑتے ہوئے گزری۔ راحت ملک قدرت کی تمام کاریگری کے ادراک کیلئے عقل وفہم کواستعمال کرنے کے حامی تھے۔ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تخلیقات میں نہ صرف اپنی ربوبیت کااظہارکیاہے بلکہ انسان کوغوروفکرکرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ دبلے پتلے جسم مگرچٹان جیسے عزم کے مالک راحت ملک بچپن سے ہی استحصالی قوتوں کے ساتھ نبردآزماہوگئے تھے۔انہوں نے ایک باطل عقیدے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی تمام خاندانی وراثت، خونی رشتوں اورشان و شوکت کوبھی ٹھکرادیااورپوری زندگی کسمپرسی میں گزارنے کوفخرمحسوس کیا۔ نوعمری کے ایک واقعہ نے راحت ملک کی زندگی کارخ موڑدیا۔اس واقعہ سے ان کی فکراورعمل کی سمت کابخوبی اندازہ لگایاجا
معظم علی: ایک درویش صفت نیوزہاکر معظم کوروزانہ ہرمزاج اورہرقماش کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے مگروہ تابعداری اورحلیمی کی خُونہیں چھوڑتا تحریر:محمدیوسف بھٹہ سردی ہو یا گرمی،بارش ہو یا دھوپ،دھندہویالُو،حبس ہویاطوفان اخبارفروش معظم علی بلا ناغہ ہمیں گجرات کی ضلع کچہری کے مین گیٹ کے باہراپنی سائیکل پراپنانیوزسٹال سجائے نظرآتاہے۔صبح 6بجے سے دوپہر ایک بجے تک وہاں مفت اخباربینوں کاہجوم نظرآتاہے۔معظم علی اسلامی مساوات کاعلمبردارہے۔وہ اخبارخریدنے والوں اور مفت پڑھنے والوں سے مساوی سلوک کرتاہوانظرآتاہے۔چاہے کوئی مفت بر اس سے بیس اخبارلیکربھی پڑھ لے وہ اس کے مطلوبہ اخبارنکال نکال کردیتا جاتا ہے اوراس کے ماتھے پر ذرابھی شکن نہیں آتی۔یہ بھی ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ اس نے آج تک کسی مفت برسے اخبارخریدنے کو نہیں کہا۔معظم علی ایک ایساشریف النفس، حلیم الطبع،منکسرالمزاج،ایمانداراورمرنجاں مرنج انسان ہے کہ وہ سارادن لوگوں کی بدتمیزیاں،بددیانتیاں اور طرح طرح کی چھوٹی موٹی زیادتیاں ہس ہس کرسہہ لیتا ہے مگرکبھی کسی کا شکوہ زبان پرنہیں لاتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ معظم سے اخبارمستعارلے کراپ
اُ ردوکے سدابہاراشعار : جوضرب المثل بن گئے (قسط نمبر1) (محمدیوسف بھٹہ) اردوشاعری ایسے بے شماراشعارسے بھری پڑی ہے جو نہ صرف سدابہارہیں بلکہ وہ ایک ضرب المثل کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔نئے لکھاری ، مقرراورخصوصاًسیاسی قائدین ان اشعارکا بے دریغ استعمال کرتے اوربے پناہ دادوصول کرتے ہیں۔ان میں زیادہ تراشعار استادشعراء کے مجموعہ ہائے کلام میں شامل ہیں۔اگرغورکیاجائے توہرشعرانتہائی گہرے تخیل اورزندگی کی حقیقتوں کواپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔آج ہم کچھ ایسے ہی اشعارآپ کی خدمت میں پیش کرنے والے ہیں: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر (ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؔ ) آہ کو چاہئے اِک عمراَثر ہونے تک کون جیتاہے تری زلف کے سرہونے تک (مرزاغالبؔ ) آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں (ساغر ؔ صدیقی) آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں توہائے گل پکارمیں چلاؤں ہائے دل (سیدمحمدخان رندؔ ) اُلجھاہے پاؤں یارکازلفِ درازمیں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا (مومن خان مومنؔ ) بہت شورسنتے تھے پہلومیں دل کا جوچیرات
Comments
Post a Comment